مولودی خوانی با نوای «سید مهدی میرداماد» به مناسبت میلاد حضرت عباس (علیه السلام)؛ «سلام یار و یاور حسین / سلام مرد واله خدا / سلام ای دلاور حسین / سلام عبد صالح خدا»
نوای زیبای «ابوالفضل علمدار» با صدای «علی فانی» برای حضرت ابوالفضل علیه السلام «چه سان نئش تو بردارم چه سان رو بر حرم آرم / نه قوت در کمر دارم ابوالفضل علمدارم / نگهبان حرم عباس امید خواهرم عباس / پناه دخترم عباس چه سان نئش تو بردارم / بیا برگرد خیمه ای کِس و کارم / من و تنهنا نزار ای علمدارم»
اجرای همخوانی زیبای «اسوه» به مناسبت ولادت حضرت ابوالفضل العباس(ع) «عالم از عشق تو آمد سوی خاکت به سجود / توئی آن مظهر زیبای عنایت به وجود» با اجرای گروه الغدیر
مرحبا یا حسین ( ع ) ، دھرتی کو سجاؤ ، میلاد مناؤ کہ حسین علیہ السلام آۓ ہیں ۔
ان اشعار میں شاعر نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شان بیان کی ہے اور حضرت امام حسین ع سے محبت رکھنے والوں کو کہا ہے کہ وہ مل کر جشن منائیں کہ حضرت علیہ السلام آئیں ہیں اور حضرت علیہ السلام تمام مسلمانوں کے دلوں میں موجود ہے ۔
یہ منقبت صفدر عباس کی آواز میں ہے جنہوں نے بہت ہی محبت آمیز آواز میں اس کو بیان کیا ہے ۔ اشعار کے ذریعے کسی کی تعریف کرنے کو منقبت کہتے ہیں .۔ مرزا غالب اور علامہ اقبال سمیت بیشتر مشہور شعراء نے منقبت لکھیں ہیں۔
دانلود آهنگ زیبا و محزون «ناجي» با صدای «رضا عباسی» در مدح حضرت ابوالفضل العباس علیه السلام، به مناسبت ایام محرم و روز تاسوعا؛ آهنگساز: «پيمان ملكی» با شعری از «آرش چاكری»
امام خامنه ای در دیدار پاسداران، جانبازان، دانشجویان و دانشآموزان بیان کردند: «دانشجویان و دانشآموزان که جوانان فعّال در عرصه علم و دانش و معرفت و آگاهیاند و خود را برای آینده اداره کشور در لایههای مختلف آماده میکنند...پاسداران، کسانی هستند که در حسّاسترین لحظات تاریخ ملی ما، از همین دانشگاهها و از همین دبیرستانها و از لابلای قشرهای مردم بیرون آمدند، در صف مستحکمی قرار گرفتند و مردانه و شجاعانه نقش ایفا کردند...جانبازان با نقص جسمانی، سلامت خودشان را فدای این راه کردند...» 11/آبان/1379(41:05)
مداحی و شور با صدای «امیر عباسی» در شب چهارم محرم الحرام؛ «امیر کشور دلهاست عباس / به یکتایی قسم، یکتاست عباس / اگر چه زاده ام البنین است / و لیکن مادرش زهراست عباس...»
سینه زنی برای حضرت اباعبدالله الحسین علیه السلام توسط برادر «امیر عباسی»؛ «سید و مولا حسین(ع)، آرام دلها حسین(ع)، زمزمه عاشقان، یا حسین(ع) و یا حسین(ع)»[دم پایانی] (4:53)
سینه زنی با مداحی «میثم مطیعی»؛ در شب دوم محرم الحرام (ورود کاروان به کربلا)؛ «اعوذ بالله من الکرب و البلا / من حسینم آفتاب سرخ کربلا / نور چشم فاطمه(س) عزیز مصطفی(ص) / بهر جاودانی شریعت خدا / حسینم و می روم به وادی بلا» (8:16)
سوگواری به مناسبت شب دوم محرم با صدای «میثم مطیعی»؛ «پیدا شد قافله شهدا / برپا شد خیمه خون خدا / هذا موضع کرب و بلا / کربلا چشم تو روشن / خاک پاکت شده گلشن...» (7:05)
امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد یزید کے افواج نے سارے خیموں کو جلا دیا اور اہل بیت اطہار کے بقیہ افراد پر مشتمل قافلے اور سارے بچوں اور خواتین کو قیدی بنا کر ابن زیاد کے پاس کوفہ لے گئے۔ یہ نوحہ شام غریباں اور انہی قیدیوں کے دکھ درد کی یاد تازہ کر رہا ہے۔(5:16)
اس نوحے کو واقعۂ کربلا کے مظالم کی یاد میں پڑھا گیا ہے جو امام حسین(ع) اور ان کے ساتھیوں پر کیے گئے۔ حسین ابن علی عليہ السلام کے ساتھ ان کے اہل خانہ اور بچے بھی تھے۔ ان بچوں میں سے ایک امام علیہ السلام کے شش ماہہ فرزند حضرت "عبداللہ ابن الحسین" تھے جو علی اصغر(ع) کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ پیاس کی شدت سے رو تے رہتے تھے۔ ان کی پیاس بجھانے کے لئے نہ تو خیموں میں پانی تھا اور نہ ہی ان کی والدہ "رباب" کے سینے میں دودھ تھا جو ان کو پلایا جائے۔ امام (ع) نے علي اصغر کو گود میں لیا اور دشمن کی طرف چل پڑے؛ یزیدی دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور فرمایا: "اے لوگو! اگر تم مجھ پر رحم نہیں کرتے تور اس طفل پر رحم کرو..." لیکن گویا کہ سنگدل دشمنوں کے دلوں پر رحم کا بیج بویا ہی نہ گیا تھا اور دنیا کی تمام رذالتیں اور پستیاں ان کے وجود کی گہرائیوں تک گھر کرگئی تھیں؛ کیونکہ انھوں نے فرزند رسول(ص) کو چلو بھر پانی دینے کے بجائے بنو اسد کے ایک تیرانداز کو کام تمام کرنے کا حکم دیا (6:26)
مداحی حماسی و زیبای برادر «ميثم مطيعی» به زبان فارسی و عربی(مُلَمَّع) در حمایت از آستانه مقدسه حرم «حضرت زینب»(س) در شب تاسوعای محرم 1392 هـ ش؛ شاعر: «محسن رضوانی». (7:27)
سرودی زیبا در خصوص حضرت عباس (ع) با نام اشک و آب برای بچه های گل «مثل باد در صحرا / در شتاب بودی تو / سوی نهر می رفتی / فکر آب بودی تو / تشنه بودی و لب را / ذره ای نکردی تر / از تو تشنه تر بودن بچه های پیغمبر» (5:01)
سینه زنی به مناسبت ذکر توسل به سقای بی دست کربلا، حضرت ابالفضل(ع)؛ «یا ابالفضل که میگم عشق و از سر می گیرم، یا ابالفضل که میگم به حرم پر می گیرم» با صدای «عبدالرضا هلالی» (7:09)